EN हिंदी
پھول سے لوگوں کو مٹی میں ملا کر آئے گی | شیح شیری
phul se logon ko miTTi mein mila kar aaegi

غزل

پھول سے لوگوں کو مٹی میں ملا کر آئے گی

شکیل سروش

;

پھول سے لوگوں کو مٹی میں ملا کر آئے گی
چل رہی ہے جو ہوا سب کچھ فنا کر جائے گی

زندگی گزرے گی مجھ کو روند کر پیروں تلے
موت لیکن مجھ کو سینے سے لگا کر جائے گی

وہ کسی کی یاد میں جلتی ہوئی شمع فراق
خود بھی پگھلے گی مری آنکھوں کو بھی پگھلائے گی

آنے والے موسموں کی سر پھری پاگل ہوا
ایک دن تیری جدائی کے ترانے گائے گی

آنے والا وقت بھی روئے گا میرے واسطے
آنے والے موسموں کو یاد میری آئے گی

اے مرے ساتھی یہ تیرے چھوڑ جانے کی کسک
مجھ کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے گی

یہ حصول زر کی خواہش ایک لعنت کی طرح
آخر اک دن تجھ کو اپنوں سے جدا کر جائے گی

زندگی اک بد چلن آوارہ لڑکی ہے سروشؔ
دیکھ لینا ایک دن یہ بھی تجھے ٹھکرائے گی