EN हिंदी
پھول مرجھا جائیں گے کانٹے لگے رہ جائیں گے | شیح شیری
phul murjha jaenge kanTe lage rah jaenge

غزل

پھول مرجھا جائیں گے کانٹے لگے رہ جائیں گے

تسنیم عابدی

;

پھول مرجھا جائیں گے کانٹے لگے رہ جائیں گے
ہر خوشی مٹ جائے گی بس دکھ ہرے رہ جائیں گے

لالہ زاروں کہساروں میں تمہیں ڈھونڈیں گے ہم
یاد کے بے نام سے کچھ سلسلے رہ جائیں گے

تم قریب ہو کر بھی اتنی دور ہوتے جاتے ہو
قربتوں کے درمیاں بس فاصلے رہ جائیں گے

تصفیہ مابین اپنے ہو نہ پائے گا کبھی
ہم انا کی آگ میں جلتے ہوئے رہ جائیں گے

عزم کی شمعیں امیدوں کی ہر اک قندیل کو
ہم بجھا کر ظلمت شب میں کھڑے رہ جائیں گے

سرمہ و غازہ کے بدلے دھول جمتی جائے گی
سب کے چہرے گرد قسمت سے اٹے رہ جائیں گے

سب چلے جائیں گے اک بے نام منزل کی طرف
گھر کی تختی کی جگہ کتبے لگے رہ جائیں گے