پھول مہکائے تھے میں نے شادمانی کے لیے
ہر نفس اب مر رہی ہوں زندگانی کے لیے
کس طرح کلیاں کھلیں اور کس طرح مہکیں گلاب
تنگ ہو جائے زمیں جب باغبانی کے لیے
صبر کی حد سے گزر جاتی ہے صحراؤں کی پیاس
خشک ہو جاتا ہے جب دریا ہی پانی کے لیے
اس کی چاہت اس کی قربت اس کی باتیں اس کی یاد
کتنے عنواں مل گئے ہیں اک کہانی کے لیے
اس لیے ہم کو نہیں بخشا گیا کوئی مکاں
کیونکہ ہم پیدا ہوئے تھے بے مکانی کے لیے
تلخیوں سے وقت کی جو ہو گئے نشتر صفت
لب تھے وہ مشہور اپنی خوش بیانی کے لیے
وقت کے جلتے ہوئے سورج کی تپتی دھوپ میں
اس کی یادوں کے شجر ہیں سائبانی کے لیے
شاعری کی بارشوں میں بھیگے بھیگے تیرے لب
رب کا ہے انعام میناؔ بے زبانی کے لیے
غزل
پھول مہکائے تھے میں نے شادمانی کے لیے
مینا نقوی