EN हिंदी
پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا | شیح شیری
phul khilte hain talab mein tara hota

غزل

پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا

رمزی آثم

;

پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا
کوئی منظر تو مری آنکھ میں پیارا ہوتا

ہم پلٹ آئے مسافت کو مکمل کر کے
اور بھی چلتے اگر ساتھ تمہارا ہوتا

ہم محبت کو سمندر کی طرح جانتے ہیں
کود ہی جاتے اگر کوئی کنارہ ہوتا

ایک ناکام محبت ہی ہمیں کافی ہے
ہم دوبارہ بھی اگر کرتے خسارہ ہوتا

کتنی لہریں ہمیں سینے سے لگانے آتیں
کوئی کنکر ہی اگر جھیل میں مارا ہوتا