پھول جو دل کی رہ گزر میں ہے
جانے کس کے وہ انتظار میں ہے
فکر بھی لطف انتظار میں ہے
بے قراری بھی کچھ قرار میں ہے
زندگی تجھ سے کیا امید رکھوں
تو کہاں میرے اختیار میں ہے
اپنا دشمن ہے یہ جہاں سارا
کتنی طاقت ہمارے پیار میں ہے
کوئی حرکت نہیں ہے ڈالی میں
کیا پرندے کے انتظار میں ہے
کر سکو تو اسے کرو محسوس
ایک لذت جو نوک خار میں ہے
وہ جو آگے تھا جاں نثاروں میں
سب سے پیچھے وہی قطار میں ہے
دھول بھی معتبر ہے رستے کی
کارواں کا نشاں غبار میں ہے
امن اور آشتی سے اس کو کیا
اس کا مقصد تو انتشار میں ہے
درد تو انگلیوں سے ملتا ہے
ورنہ آواز تو ستار میں ہے
کل بھی وہ میرا منتظر تھا عزیزؔ
آج بھی میرے انتظار میں ہے

غزل
پھول جو دل کی رہ گزر میں ہے
عزیز انصاری