پھول جیسی ہے کبھی یہ خار کی مانند ہے
زندگی صحرا کبھی گلزار کی مانند ہے
تم قلم کی دھار کو کم مت سمجھنا دوستو
یہ قلم تو ہے مگر تلوار کی مانند ہے
چار دن کے واسطے سب کو ملی ہے دہر میں
زندگی بھی ریت کی دیوار کی مانند ہے
پاس پیسہ ہے نہیں پھر بھی جہاں میں مست ہوں
زندگی اپنی کسی فن کار کی مانند ہے
زندگی کس وقت دھوکا دے دے امبرؔ کیا پتا
یہ بھی لگتا ہے کسی غدار کی مانند ہے
غزل
پھول جیسی ہے کبھی یہ خار کی مانند ہے
امبر جوشی