پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ
یاد کا سورج ذہن میں چمکا پلکوں پر لہرائی دھوپ
گاؤں کی دھرتی بانجھ ہوئی ہے پنگھٹ سونا سونا ہے
پیپل کے پتوں میں چھپ کر ڈھونڈھتی ہے تنہائی دھوپ
کوئی کرن بھی کام نہ آئی جیون کے اندھیارے میں
میرے گھر کے باہر لیکن لیتی رہی انگڑائی دھوپ
ہم تو سدھ بدھ کھو بیٹھے تھے ہستی کے ویرانے میں
جانے کب زلفیں لہرائیں جانے کب سنولائی دھوپ
غزل
پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ
کیف عظیم آبادی