EN हिंदी
پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ | شیح شیری
phul hanse aur shabnam roi aai saba muskai dhup

غزل

پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ

کیف عظیم آبادی

;

پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ
یاد کا سورج ذہن میں چمکا پلکوں پر لہرائی دھوپ

گاؤں کی دھرتی بانجھ ہوئی ہے پنگھٹ سونا سونا ہے
پیپل کے پتوں میں چھپ کر ڈھونڈھتی ہے تنہائی دھوپ

کوئی کرن بھی کام نہ آئی جیون کے اندھیارے میں
میرے گھر کے باہر لیکن لیتی رہی انگڑائی دھوپ

ہم تو سدھ بدھ کھو بیٹھے تھے ہستی کے ویرانے میں
جانے کب زلفیں لہرائیں جانے کب سنولائی دھوپ