پھول اللہ نے بنائے ہیں مہکنے کے لیے
اور بلبل کو بنایا ہے چہکنے کے لیے
آتش غم سے بنایا ہے مرے سینے میں
دل کو انگارے کی مانند دہکنے کے لیے
بچے کمبخت وہ دل کیونکہ بھلا جس دل کے
مستعد ہو نگۂ شوخ اچکنے کے لیے
رند کہتے ہیں کہ خالق نے کیا ہے پیدا
رات دن ناصح بیہودہ کو بکنے کے لیے
رحم اے چشم بنایا ہے کہیں کیا دل کو
قطرۂ اشک ہو مژگاں سے ٹپکنے کے لیے
شیخ کو رندوں سے کہہ دو کہ نظر میں رکھیں
کیونکہ اب ڈھونڈے ہے قابو وہ کھسکنے کے لیے
عیشؔ بتلا تو بنا ہے دل حیراں تیرا
مثل آئینہ یہ کس شکل کے تکنے کے لیے
غزل
پھول اللہ نے بنائے ہیں مہکنے کے لیے
عیش دہلوی