EN हिंदी
فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے | شیح شیری
phone to dur wahan KHat bhi nahin pahunchenge

غزل

فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے

ضیاء مذکور

;

فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے
اب کے یہ لوگ تمہیں ایسی جگہ بھیجیں گے

زندگی دیکھ چکے تجھ کو بڑے پردے پر
آج کے بعد کوئی فلم نہیں دیکھیں گے

مسئلہ یہ ہے میں دشمن کے قریں پہنچوں گا
اور کبوتر مری تلوار پہ آ بیٹھیں گے

ہم کو اک بار کناروں سے نکل جانے دو
پھر تو سیلاب کے پانی کی طرح پھیلیں گے

تو وہ دریا ہے اگر جلدی نہیں کی تو نے
خود سمندر تجھے ملنے کے لیے آئیں گے

صیغۂ راز میں رکھیں گے نہیں عشق ترا
ہم ترے نام سے خوشبو کی دکاں کھولیں گے