EN हिंदी
پھرتا ہوں میں گھاٹی گھاٹی صحرا صحرا تنہا تنہا | شیح شیری
phirta hun main ghaTi ghaTi sahra sahra tanha tanha

غزل

پھرتا ہوں میں گھاٹی گھاٹی صحرا صحرا تنہا تنہا

گیان چند

;

پھرتا ہوں میں گھاٹی گھاٹی صحرا صحرا تنہا تنہا
بادل کا آوارہ ٹکڑا کھویا کھویا تنہا تنہا

پچھم دیس کے فرزانوں نے نصف جہاں سے شہر بسائے
ان میں پیر بزرگ ارسطو بیٹھا رہتا تنہا تنہا

کتنا بھیڑ بھڑکا جگ میں کتنا شور شرابہ لیکن
بستی بستی کوچہ کوچہ چپا چپا تنہا تنہا

سیر کرو باطن میں اس کے کیسا کیسا کمبھ لگا ہے
تاک رہا ہے دور افق کو جو بیچارہ تنہا تنہا

سیر تماشا رکنے والے سیاحو یہ بھی سوچا ہے
گھڑیاں گھر کو ڈھالنے والا خود ہے کتنا تنہا تنہا

کوئی نہ اس کا مال خریدے کوئی نہ اس کی جانب دیکھے
اب بنجارہ گھوم رہا ہے قریہ قریہ تنہا تنہا

دھوم مچی ہے چھوٹ رہے ہیں شہر میں رنگوں کے فوارے
بیچ میں اک قصباتی لڑکا سہما سہما تنہا تنہا

دھرتی اور امبر پر دونوں کیا رعنائی بانٹ رہے تھے
پھول کھلا تھا تنہا تنہا چاند اگا تھا تنہا تنہا