پھر زبان عشق چشم خونفشاں ہونے لگی
پھر حدیث دل سر محفل بیاں ہونے لگی
پھر کسی کی شوخ نظروں نے کیا جھک کر سلام
پھر محبت ساز دل پہ نغمہ خواں ہونے لگی
پھر کسی کی یاد آئی پھر ہوئے آنسو رواں
پھر ستاروں کی چمک دل پر گراں ہونے لگی
پھر تصور میں کوئی آنے لگا ہے بار بار
پھر مری امید کی دنیا جواں ہونے لگی
پھر چمن میں غنچۂ نورس نے لیں انگڑائیاں
پھر سرود افزا بہار گلستاں ہونے لگی
پھر پکارا چاند تاروں نے مجھے شام فراق
پھر نگاہ شوق نذر آسماں ہونے لگی
پھر کسی کا دامن رنگیں ہے میرا ہاتھ ہے
پھر دل پر شوق کی حسرت عیاں ہونے لگی
پھر سمایا ہے مری نظروں میں وہ ماہ مبیں
پھر نگاہ دل جواب آسماں ہونے لگی
پھر گھٹا اٹھنے لگی توبہ کے پھر لالے پڑے
پھر خوشامد تیری اے پیر مغاں ہونے لگی
پھر چلا دیوانہ فیضیؔ کوئے جاناں کی طرف
پھر جنون عشق کی حالت عیاں ہونے لگی

غزل
پھر زبان عشق چشم خونفشاں ہونے لگی
فیضی نظام پوری