EN हिंदी
پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سنبھالو مجھ کو | شیح شیری
phir ye mumkin hi nahin hai ki sambhaalo mujhko

غزل

پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سنبھالو مجھ کو

نتن نایاب

;

پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سنبھالو مجھ کو
اک ذرا قید سے باہر تو نکالو مجھ کو

اس حقیقت کی بھی آمد ہو مرے حجرے میں
چھوڑ کے جاؤ کبھی خوابو خیالو مجھ کو

جسم کو درد میں ہنسنے کا ہنر آتا ہے
التجا یہ ہے کہ پتھر میں نہ ڈھالو مجھ کو

میں نے پابندی لگا دی ہے زباں پر ورنہ
مدعا چیخ رہا ہے کہ اچھالو مجھ کو

تب تلک کوزہ گرو خواب ہے تعبیر مری
جب تلک پوری طرح توڑ نہ ڈالو مجھ کو

ماورا ہوں میں ہر اک لفظ سخن سے جو مجھے
تم کو پڑھنا ہے تو پھر سوچ میں ڈھالو مجھ کو

لو میں کرتا ہوں مری خاک تمہارے ہی سپرد
جیسی درکار ہو ویسا ہی بنا لو مجھ کو

پہلے ملبے کو مرے صاف کرو اوپر سے
پھر مری خاک کے نیچے سے نکالو مجھ کو

آنکھیں نیزے پہ ٹکے دیکھ کے اپنی نایابؔ
بول اٹھے خواب بھی اب تو کہ نہ پالو مجھ کو