پھر وہ بے سمت اڑانوں کی کہانی سن کر
سو گیا پیڑ پرندوں کی کہانی سن کر
کیا یہی خواب کی تعبیر ہوا کرتی ہے
اڑ گئی نیند بھی آنکھوں کی کہانی سن کر
آبلے ایسے کبھی پھوٹ کر نا روئے تھے
جس طرح روئے ہیں کانٹوں کی کہانی سن کر
ہم وہ صحرا کے مسافر ہیں ابھی تک جن کی
پیاس بجھتی ہے سرابوں کی کہانی سن کر
درد کی حد سے گزر کر تو یہی ہونا تھا
آنکھ پتھرا گئی اشکوں کی کہانی سن کر
کشتیاں لوٹ تو آئی ہیں مگر اک ساحل
سوچ میں ڈوبا ہے موجوں کی کہانی سن کر
تم نے تو صرف بہاروں میں انہیں دیکھا ہے
تم بکھر جاؤ گے پھولوں کی کہانی سن کر
سارے کردار سیانے تھے مگر جھوٹے تھے
لوگ حیران تھے بچوں کی کہانی سن کر
کتنا آسان تھا بچپن میں سلانا ہم کو
نیند آ جاتی تھی پریوں کی کہانی سن کر
ان کو معلوم تھا چہروں کی حقیقت کیا ہے
چپ رہے آئنے چہروں کی کہانی سن کر
غزل
پھر وہ بے سمت اڑانوں کی کہانی سن کر
بھارت بھوشن پنت