پھر وہی موسم جدائی ہے
پھر مجھے اپنی یاد آئی ہے
پھر پڑھا میں نے تیرا پہلا خط
پھر سے تجھ تک مری رسائی ہے
پھول سا پھر مہک رہا ہوں میں
پھر ہتھیلی میں وہ کلائی ہے
پہلے بوسے کی نیم گرم آہٹ
پھر رگ جاں میں رت جگائی ہے
پھر ہری ہے تمام تنہائی
پھر سے پانی کو سبز پائی ہے
پھر مرا ہے تمام سناٹا
پھر مری بازگشت چھائی ہے
پھر زمانہ مری گرفت میں ہے
پھر مجھے وہم کبریائی ہے
پھر تجھے چھو کے دیکھتا ہوں میں
پھر سے قندیل سی جلائی ہے
پھر تصور میں تیرے لب آئے
میری ہر بات پھر حنائی ہے
ڈھیر ہے پھر سے خاک کی دیوار
پھر مجھے ذوق رونمائی ہے
پھر وہی میں نیا نیا سا ہوں
پھر زمیں سے مری رہائی ہے

غزل
پھر وہی موسم جدائی ہے
فرحت احساس