EN हिंदी
پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے | شیح شیری
phir uske phande mein ja rahe hain ki jis ke phande mein ja chuke the

غزل

پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے

نسیم دہلوی

;

پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
وہی مصیبت اٹھا رہے ہیں کہ جو مصیبت اٹھا چکے تھے

کہو جو بے جا بجا ہے مجھ کو سزا ہے جو ناسزا ہے مجھ کو
کہ ان کا رونا پڑا ہے مجھ کو جو مدتوں تک رلا چکے تھے

جو ان کی خو تھی سو ان کی خو ہے جو گفتگو تھی سو گفتگو ہے
پھر ان پہ مٹنے کی آرزو ہے جو ہر طرح سے مٹا چکے تھے

عدو کا میں ہوں عدو مقرر برابر آ کے ہوئے برابر
بھلا بدلتا نہ رنگ کیوں کر وہ رنگ اپنے جما چکے تھے

کسی سے کوئی نہ دل لگائے نسیمؔ کیا کیفیت بتائے
وہی اب آنسو بہانے آئے لہو جو میرا بہا چکے تھے