پھر تم رخ زیبا سے نقاب اپنے اٹھا دو
اچھا ہے کہ آئینے کو آئینہ دکھا دو
جب برق کے احساں سے بچانا ہے خودی کو
خود اپنے ہی نالوں سے نشیمن کو جلا دو
وہ سامنے آتے نہیں اچھا تو نہ آئیں
تم جذب محبت سے حجابات اٹھا دو
گل کر سکیں جس کو نہ ہواؤں کے تھپیڑے
وہ شمع زمانے میں محبت کی جلا دو
تم نے تو نظر پھیر لی بھر کر نفس سرد
لازم تھا کہ بھڑکے ہوئے شعلے کو ہوا دو
زنداں سے نکلنے کی یہ تدبیر غلط ہے
زنجیر کے ٹکڑے کرو دیوار گرا دو
میں یہ نہیں کہتا کہ بجا ہی سہی لیکن
رفعتؔ پہ بھی بے جا کوئی الزام لگا دو
غزل
پھر تم رخ زیبا سے نقاب اپنے اٹھا دو
رفعت سیٹھی