EN हिंदी
پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا | شیح شیری
phir to is be-nam safar mein kuchh bhi na apne pas raha

غزل

پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا

غلام محمد قاصر

;

پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا
تیری سمت چلا ہوں جب تک سمتوں کا احساس رہا

تیری گلی میں ٹوٹ گئے سب جرم و سزا کے پیمانے
ایک تبسم دیکھنے والا ساری عمر اداس رہا

گلچیں کے چہرے کی رنگت روز بدلتی رہتی تھی
رنج و خوشی کے ہر موسم میں پھول کا ایک لباس رہا

جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا
قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا