پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا
تیری سمت چلا ہوں جب تک سمتوں کا احساس رہا
تیری گلی میں ٹوٹ گئے سب جرم و سزا کے پیمانے
ایک تبسم دیکھنے والا ساری عمر اداس رہا
گلچیں کے چہرے کی رنگت روز بدلتی رہتی تھی
رنج و خوشی کے ہر موسم میں پھول کا ایک لباس رہا
جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا
قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا
غزل
پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا
غلام محمد قاصر