پھر ترے ہجر کے جذبات نے انگڑائی لی
تھک کے دن ڈوب گیا رات نے انگڑائی لی
جیسے اک پھول میں خوشبو کا دیا جلتا ہے
اس کے ہونٹوں پہ شکایات نے انگڑائی لی
سرخ ہی سرخ ہے اس شہر کا منظر نامہ
امن ہوتے ہی فسادات نے انگڑائی لی
ہم بھی اس جنگ میں فی الحال کیے لیتے ہیں صلح
دیکھا جائے گا جو حالات نے انگڑائی لی
گرمیٔ آہ سے نم ہو گئیں آنکھیں اے دوست
بڑھ گیا حبس تو برسات نے انگڑائی لی
فاصلہ رنج و مسرت میں بس اک سانس کا ہے
مسکرائے تھے کہ صدمات نے انگڑائی لی
جھیل جیسی وہ چمکتی ہوئی آنکھیں تسنیمؔ
ان میں ڈوبے تھے کہ نغمات نے انگڑائی لی
غزل
پھر ترے ہجر کے جذبات نے انگڑائی لی
تسنیم فاروقی