EN हिंदी
پھر تیز ہوا چلتے ہی بے کل ہوئیں شاخیں | شیح شیری
phir tez hawa chalte hi be-kal huin shaKHen

غزل

پھر تیز ہوا چلتے ہی بے کل ہوئیں شاخیں

رفیق خاور جسکانی

;

پھر تیز ہوا چلتے ہی بے کل ہوئیں شاخیں
کس درد کے احساس سے بوجھل ہوئیں شاخیں

کیا سوچ کے رقصاں ہیں سر شام کھلے سر
کس کاہش بے نام سے پاگل ہوئیں شاخیں

گرتے ہوئے پتوں کی تڑپتی ہوئی لاشیں
صد طنطنۂ زیست کا مقتل ہوئیں شاخیں

ترسی ہوئی باہیں ہیں ہمکتے ہوئے آغوش
دیوانگئ شوق کا سمبل ہوئیں شاخیں

پھر رات کے اشکوں سے فضا بھیگ چلی ہے
پھر اوس کی برسات سے شیتل ہوئیں شاخیں

جھونکے ہیں کہ شہنائی کے سر جاگ رہے ہیں
اک نغمہ گر ناز کی پائل ہوئیں شاخیں

برگد کا تنا ایک صدی عمر رواں کی
سائے ہیں مہ و سال تو پل پل ہوئیں شاخیں

ہر ڈال پہ اک ٹوٹتی انگڑائی کا عالم
شب بھر جو ہوا تیز رہی شل ہوئیں شاخیں

جاتا ہوا مہتاب جو دم بھر کو رکا ہے
اک مہوش طناز کا آنچل ہوئیں شاخیں

جب ڈوب گیا غم کے افق میں دل تنہا
مہتاب سے دور آنکھ سے اوجھل ہوئیں شاخیں