EN हिंदी
پھر سورج نے شہر پہ اپنے قہر کا یوں آغاز کیا | شیح شیری
phir suraj ne shahr pe apne qahr ka yun aaghaz kiya

غزل

پھر سورج نے شہر پہ اپنے قہر کا یوں آغاز کیا

سراج اجملی

;

پھر سورج نے شہر پہ اپنے قہر کا یوں آغاز کیا
جن جن کے لمبے دامن تھے ان کا افشا راز کیا

زہر نصیحت تیر ملامت درس حقیقت سب نے دیئے
ایک وہی تھا جس نے میری ہر عادت پر ناز کیا

نقد تعلق خوب کمایا لیکن خرچ ارے توبہ
یہ تو بتاؤ کل کی خاطر کیا کچھ پس انداز کیا

شہر میں اس کیفیت کا ہے کون محرک کچھ تو کہو
جس کیفیت نے تم کو دیوانوں میں ممتاز کیا

کوئے ملامت کے باشندے تم کو سجدہ کرتے ہیں
کس نے اس بستی میں آخر ایسے سرافراز کیا

دہلی میں رہنا ہے اگر تو طرز میر ضروری ہے
اس نے بھی تو عشق کیا پھر یاں رہنا آغاز کیا

پہلے اڑنے کی دعوت دی تا حد امکان سراجؔ
پھر جانے کیوں خود ہی اس نے قطع پر پرواز کیا