EN हिंदी
پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے | شیح شیری
phir se wahi haalat hain imkan bhi wahi hai

غزل

پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے

شہپر رسول

;

پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے
ہم بھی ہیں وہی مسئلۂ جاں بھی وہی ہے

کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں کچھ نہیں بدلا
آنکھیں بھی وہی خواب پریشاں بھی وہی ہے

یہ جال بھی اس نے ہی بچھایا تھا اسی نے
خوش خوش بھی وہی شخص تھا حیراں بھی وہی ہے

اے وقت کہیں اور نظر ڈال یہ کیا ہے
مدت کے وہی ہاتھ گریباں بھی وہی ہے

کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری
تم خوش ہو کہ اس شام کا عنواں بھی وہی ہے

ہر تیر اسی کا ہے ہر اک زخم اسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے

شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصہ وہی پھر سے
اچھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے