پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم
چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل پہ بے خودی
پھر زندگی کو ہوش میں لائے ہوئے ہیں ہم
جس کا ہر ایک جزو ہے اکسیر زندگی
پھر خاک میں وہ جنس ملائے ہوئے ہیں ہم
ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز
پھر غم کا بار دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں ہم
ہاں کون درس عشق جنوں کا ہے خواست گار
آئے کہ ہر سبق کو بھلائے ہوئے ہیں ہم
آئے جسے ہو جادۂ رفعت کی آرزو
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
بیعت کو آئے جس کو ہو تحقیق کا خیال
کون و مکاں کے راز کو پائے ہوئے ہیں ہم
ہستی کے دام سخت سے اکتا گیا ہے کون
کہہ دو کہ پھر گرفت میں آئے ہوئے ہیں ہم
ہاں کس کے پائے دل میں ہے زنجیر آب و گل
کہہ دو کہ دام زلف میں آئے ہوئے ہیں ہم
ہاں کس کو جستجو ہے نسیم فراغ کی
آسودگی کو آگ لگائے ہوئے ہیں ہم
ہاں کس کو سیر ارض و سما کا ہے اشتیاق
دھونی پھر اس گلی میں رمائے ہوئے ہیں ہم
جس پر نثار کون و مکاں کی حقیقتیں
پھر جوشؔ اس فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم
غزل
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
جوشؔ ملیح آبادی