EN हिंदी
پھر سجے بزم طرب زلف کھلے شانہ چلے | شیح شیری
phir saje bazm-e-tarab zulf khule shana chale

غزل

پھر سجے بزم طرب زلف کھلے شانہ چلے

حسن عابد

;

پھر سجے بزم طرب زلف کھلے شانہ چلے
پھر وہی سلسلۂ شوخئ رندانہ چلے

پھر یہ یکجائی یاران چمن ہو کہ نہ ہو
دیر تک آج ذرا بزم میں پیمانہ چلے

پھر کوئی قیس ہو آوارۂ صحرائے جنوں
پھر کسی گیسوئے شب رنگ کا افسانہ چلے

ہم وہ بد مست جنوں ہیں جو سر راہ حیات
کبھی باہوش کبھی ہوش سے بیگانہ چلے

ہم نے چاہا تو نہ تھا ان سے الجھنا لیکن
اس کو کیا کہیے وہ ہر چال حریفانہ چلے

وقت بدلا ہے تو پھر کیوں نہ بہ انداز دگر
وہی تحریک شکست خم و خم خانہ چلے