پھر صدائے محبت سنی ہے ابھی
زخم نو کی سعادت ملی ہے ابھی
رابطہ دل کا دل سے ہے کافی مجھے
نور ہی نور میں زندگی ہے ابھی
وقت بدلا ہے ہم تم تو بدلے نہیں
وہ ہی چاہت وہی بے بسی ہے ابھی
یہ جبیں اور کسی در پہ جھکتی ہی کیوں
اس میں تیری محبت جڑی ہے ابھی
کچھ تمنا سے بڑھ کر بھی پایا مگر
آرزو ایک سب سے بڑی ہے ابھی
آج بھی زندگانی میں جان صفیؔ
اور سب کچھ ہے تیری کمی ہے ابھی

غزل
پھر صدائے محبت سنی ہے ابھی
عتیق الرحمٰن صفی