پھر نغمہ ریز ابر بہاراں ہے آج کل
پھر چاک دل بقدر گریباں ہے آج کل
رنگینیٔ بہار کا اللہ رے فسوں
ساز دل شکستہ غزل خواں ہے آج کل
پھر میں ہوں اور محفل جاناں کی آرزو
پھر مہرباں سیاست درباں ہے آج کل
وہ سجدہ جو بہائے دو عالم سے ہے گراں
میری جبین شوق میں غلطاں ہے آج کل
یہ ابر یہ ہوا یہ برستی ہوئی شراب
کافر ہے سخت وہ جو مسلماں ہے آج کل
ساقی نے وا کیا در مے خانۂ حیات
فطرت کی چشم مہر پشیماں ہے آج کل
میں اور دور ساغر و مینا ہے ان دنوں
آنکھیں ہیں اور تصور جاناں ہے آج کل
پہلے بھی عطر بیز نسیم بہار تھی
کس کی شمیم زلف پریشاں ہے آج کل
بھاتی نہیں ہے دل کو کسی ساز کی صدا
نغموں کا ہر نفس میں وہ طوفاں ہے آج کل
ژولیدگی نہ پوچھ فضاؤں میں ہم نشیں
خوشبوئے زلف دوست پریشاں ہے آج کل
ہر جلوہ حیات بقدر نشاط و رنگ
منت کش تبسم جاناں ہے آج کل
اے روح درد و شاد یہ تیرا ہی فیض ہے
جوہرؔ جو اس ادا سے غزل خواں ہے آج کل
غزل
پھر نغمہ ریز ابر بہاراں ہے آج کل
جوہر نظامی