پھر مجھے حوصلہ عرض و بیاں مل جائے
کچھ دنوں کے لئے مجھ کو بھی زباں مل جائے
سامنا ہوگا تو کچھ کہہ نہ سکیں گے اس سے
جانے اس بھیڑ میں وہ شوخ کہاں مل جائے
اجنبی گاؤں میں پھرتا ہوں یہ امید لئے
چھاؤں درکار ہے تھوڑی سی جہاں مل جائے
کیا تماشہ ہے کہ میں قصد نشیمن لے کر
گھر سے نکلوں تو مجھے برق تپاں مل جائے
وہیں آ جاتا ہے ناکامئ قسمت کا خیال
سود کی دل میں تمنا ہو زیاں مل جائے
کاش قاصد کو مرا حال سنانے کے لئے
چند لمحوں کے لئے میری زباں مل جائے
میرے اشعار ہوں مقبول زمانہ کوثرؔ
مجھ کو ایسا کہیں انداز بیاں مل جائے

غزل
پھر مجھے حوصلہ عرض و بیاں مل جائے
مہر چند کوثر