پھر میں ان منزلوں کا طالب ہوں پھر میں اس راہ سے گزرتا ہوں
اب میں تجھ کو صدائیں کیا دوں گا اب میں خود کو تلاش کرتا ہوں
ہر صدا سن کے دل دھڑکتا ہے مجھ کو خاموشیوں سے دہشت ہے
کیا کروں سامنا جہان کا اب جب میں پرچھائیوں سے ڈرتا ہوں
میری ہستی عجیب ہے یارب اب مجھے خود پہ اختیار نہیں
عالم بے خودی میں جیتا ہوں میں غم عاشقی میں مرتا ہوں
اب کے دن کچھ سیاہ لگتا ہے اب کے تارے بجھے بجھے سے ہیں
زخم کھا کر میں مسکراتا ہوں جب سکوں پاؤں آہ بھرتا ہوں

غزل
پھر میں ان منزلوں کا طالب ہوں پھر میں اس راہ سے گزرتا ہوں
سندیپ کول نادم