پھر کوئی تازہ ستم وہ ستم ایجاد کرے
کاش اس کرب تغافل سے اب آزاد کرے
کہیں بنجر ہی نہ ہو جائے مرے دل کی زمیں
لالۂ زخم سے اس کشت کو آباد کرے
جانتا تھا کے ہر آواز پلٹ آئے گی
پھر تواتر سے دعا کیوں دل ناشاد کرے
اپنے لہجے کی ہی سختی کو تصور کر کے
لوٹ آنے کی شب ہجر میں فریاد کرے
گام در گام بدلتا ہے چلن ظالم کا
جانے اس بار نئی کون سی بیداد کرے
اس سے کہہ دے کوئی خاموش ہے ساز ہستی
چھیڑ کر وصل کا نغمہ مرا دل شاد کرے
لوگ انجام کی دہشت سے نکل آئے ہیں
اب جو کر پائے تو اس شہر کو برباد کرے
غزل
پھر کوئی تازہ ستم وہ ستم ایجاد کرے
اسریٰ رضوی