EN हिंदी
پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا | شیح شیری
phir koi apni wafa ka wasta dene laga

غزل

پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا

نور جہاں ثروت

;

پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا

طے کرو اپنا سفر تنہائیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کیوں راستہ دینے لگا

راہزن ہی راہ کے پتھر اٹھا کر لے گئے
اب تو منزل کا پتا خود قافلہ دینے لگا

غربتوں کی آنچ میں جلنے سے کچھ حاصل نہ تھا
کیسے کیسے لطف دیکھو فاصلہ دینے لگا

شہر نا پرساں میں اے ثروتؔ سبھی قاضی بنے
یعنی ہر نافہم اپنا فیصلہ دینے لگا