پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا
طے کرو اپنا سفر تنہائیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کیوں راستہ دینے لگا
راہزن ہی راہ کے پتھر اٹھا کر لے گئے
اب تو منزل کا پتا خود قافلہ دینے لگا
غربتوں کی آنچ میں جلنے سے کچھ حاصل نہ تھا
کیسے کیسے لطف دیکھو فاصلہ دینے لگا
شہر نا پرساں میں اے ثروتؔ سبھی قاضی بنے
یعنی ہر نافہم اپنا فیصلہ دینے لگا

غزل
پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
نور جہاں ثروت