EN हिंदी
پھر کسی یاد کا دروازہ کھلا آہستہ | شیح شیری
phir kisi yaad ka darwaza khula aahista

غزل

پھر کسی یاد کا دروازہ کھلا آہستہ

حمید الماس

;

پھر کسی یاد کا دروازہ کھلا آہستہ
کون آتا ہے چلا آئے ذرا آہستہ

دم زدن میں نہیں جائے گی بہار گلشن
آبلے پھوٹیں گے اے آبلہ پا آہستہ

بات وہ صاف ہی کب تھی جو سمجھ میں آتی
مجھ سے کچھ کہتی رہی چشم حیا آہستہ

شام ہے ایک ستارہ ہے سر چرخ وفا
مانگ اس وقت کوئی دل سے دعا آہستہ

ہائے اس شخص پہ کیا جانیے کیا گزری تھی
باتوں باتوں میں ترے گھر سے اٹھا آہستہ

ہجر کی رات ہے پچھلے کا سماں ہے الماسؔ
درد آہستہ ذرا باد صبا آہستہ