پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
برنگ مہر عجب کچھ چمکتا آتا ہے
ادھر ادھر جو نظر ہے تو اس لیے یارو
جو ڈھب سے تاکتے ہیں ان کو تکتا آتا ہے
کوئی جو راہ میں کہتا ہے دل کی بے تابی
تو اس سے کہتا ہے کیا تو یہ بکتا آتا ہے
ملاپ کرنا ہے جس سے تو اس کی جانب واہ
قدم اٹھاتا ہے جلد اور ہمکتا آتا ہے
ہمارے دل کی جو آتش ہے دینی پھر بھڑکا
جبھی نظیرؔ وہ پلکیں جھپکتا آتا ہے
غزل
پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
نظیر اکبرآبادی