پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے
یہ آئینہ ہے اسے دیکھ کر بنایا جائے
میں سوچتا ہوں ترے لا مکاں کے اس جانب
مکان کیسا بنے گا اگر بنایا جائے
ذرا ذرا سے کئی نقص ہیں ابھی مجھ میں
نئے سرے سے مجھے گوندھ کر بنایا جائے
زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دل خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جائے
بہت سے لفظ پڑے حاشیوں میں سوچتے ہیں
کسی طرح سے عبارت میں در بنایا جائے
وہ جا رہا ہے تو جاتے ہوئے کو روکنا کیا
ذرا سی بات کو کیوں درد سر بنایا جائے
کہیں رکیں گے تو طارق نعیمؔ دیکھیں گے
سفر میں کیا کوئی زاد سفر بنایا جائے
غزل
پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے
طارق نعیم