EN हिंदी
پھر اک ساتھی مجھے اکیلا چھور گیا | شیح شیری
phir ek sathi mujhe akela chhor gaya

غزل

پھر اک ساتھی مجھے اکیلا چھور گیا

محمود شام

;

پھر اک ساتھی مجھے اکیلا چھور گیا
آپ سدھارا اپنا سایا چھوڑ گیا

اس کو کتنے پیڑ صدائیں دیتے تھے
وہ تو سب کو یوں ہی بلاتا چھوڑ گیا

اب تک میدانوں کے جسم چمکتے ہیں
جانے کیسی مٹی دریا چھوڑ گیا

لپٹ لپٹ کر اک دوجے سے روتے ہیں
جن پتوں کو ہوا کا جھونکا چھوڑ گیا

چاندنی شب تو جس کو ڈھونڈنے آئی ہے
یہ کمرہ وہ شخص تو کب کا چھوڑ گیا

چال تھی کتنی تیز بدلتے موسم کی
کتنے ہی لمحوں کو سسکتا چھوڑ گیا

ساری منڈیریں ویراں ویراں رہتی ہیں
جب سے شامؔ نگر تو اپنا چھوڑ گیا