پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا
پھر کسی دن اپنے اندر کچھ نہ کچھ مر جائے گا
پھیلتا جاتا ہے یہ جو ہر طرف اک شور سا
ایک سناٹا کسی دہلیز پر دھر جائے گا
یوں رہا تو سارے منظر بد نما ہو جائیں گے
اک بھیانک رنگ ہر تصویر میں بھر جائے گا
کر رہا ہے اپنی بستی میں جو خوشیوں کی تلاش
کوئی تیکھا درد اپنے ساتھ لے کر جائے گا
یوں اچانک بھی ہوا کرتا ہے کوئی حادثہ
مجھ کو کیا معلوم تھا وہ اس طرح مر جائے گا
چھا گئی نفرت کی گہری دھند اتنی دور تک
پیار کا سورج وہاں تک کون لے کر جائے گا
راہرو اب تک کھڑے ہیں راہ میں اس آس پر
کوئی آئے گا ادھر اور کچھ نہ کچھ کر جائے گا
غزل
پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا
بلبیر راٹھی