پھر فضا دھندلا گئی آثار ہیں طوفان کے
کانپتے ہیں پھول کمرے میں مرے گلدان کے
چل رہے ہیں دل میں نخلستان کا ارماں لیے
ہم مسافر زندگی کے تپتے ریگستان کے
سیل غم رکھتا ہے یوں میرے ارادوں کو جواں
جس طرح سیلاب میں پھلتے ہیں پودے دھان کے
توڑ دے گا اک نہ اک دن یہ طلسم اوہام کا
صاف دیتے ہیں پتہ تیور نئے انسان کے
دوستو جس دم اتر جاتا ہے گندم کا خمار
ذہن کی شاخوں سے اڑ جاتے ہیں پنچھی دھیان کے

غزل
پھر فضا دھندلا گئی آثار ہیں طوفان کے
حزیں لدھیانوی