EN हिंदी
پھر ایک بار ترا تذکرہ نکل آیا | شیح شیری
phir ek bar tera tazkira nikal aaya

غزل

پھر ایک بار ترا تذکرہ نکل آیا

کیفی وجدانی

;

پھر ایک بار ترا تذکرہ نکل آیا
مجھے تراشا تو پیکر ترا نکل آیا

یہ میرے گھر کے دریچوں میں روشنی کیسی
یہاں چراغ کا کیا سلسلہ نکل آیا

جو نقش نقش اسیری کا سحر جانتے تھے
ان آئینوں سے بھی سایا مرا نکل آیا

میں اپنے شور میں کب تک دبا ہوا رہتا
صدائیں دیتا ہوا بے صدا نکل آیا

لپٹ کے روتا رہا وہ بجھے چراغوں سے
کہ طاق طاق کوئی سلسلہ نکل آیا

دیا تھا جس کو زمانے نے تیرے قرب کا نام
مرے ہی قدموں سے وہ فاصلہ نکل آیا