EN हिंदी
پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں | شیح شیری
phir chand dinon se wo har shab KHwabon mein hamare aate hain

غزل

پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں

ارشد کاکوی

;

پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں
پھر راہ گزار دل پر کچھ قدموں کے نشاں ہم پاتے ہیں

کچھ رات گئے کچھ رات رہے ہم اکثر اشک بہاتے ہیں
کیا جانے آگ لگاتے ہیں یا دل کی آگ بجھاتے ہیں

اے دل اے خوشیوں کے مدفن اے میرے غموں کے تاج محل
لے خوش ہو تیری زیارت کو احساس کے مارے آتے ہیں

اس درجہ ہوئے ہم دنیا سے بیزار کہ ذکر غیر تو کیا
اب خود سے گریزاں ہیں اور اپنے سائے سے گھبراتے ہیں

مانوس ہیں غم سے کچھ ایسے گر نیند میں بھی ہم نے ارشدؔ
اپنے کو ہنستے دیکھ لیا تو دیکھتے ہی ڈر جاتے ہیں