پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں
پھر راہ گزار دل پر کچھ قدموں کے نشاں ہم پاتے ہیں
کچھ رات گئے کچھ رات رہے ہم اکثر اشک بہاتے ہیں
کیا جانے آگ لگاتے ہیں یا دل کی آگ بجھاتے ہیں
اے دل اے خوشیوں کے مدفن اے میرے غموں کے تاج محل
لے خوش ہو تیری زیارت کو احساس کے مارے آتے ہیں
اس درجہ ہوئے ہم دنیا سے بیزار کہ ذکر غیر تو کیا
اب خود سے گریزاں ہیں اور اپنے سائے سے گھبراتے ہیں
مانوس ہیں غم سے کچھ ایسے گر نیند میں بھی ہم نے ارشدؔ
اپنے کو ہنستے دیکھ لیا تو دیکھتے ہی ڈر جاتے ہیں
غزل
پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں
ارشد کاکوی