EN हिंदी
پھر چاہے جتنی قامت لے کر آ جانا | شیح شیری
phir chahe jitni qamat le kar aa jaana

غزل

پھر چاہے جتنی قامت لے کر آ جانا

مظفر وارثی

;

پھر چاہے جتنی قامت لے کر آ جانا
پہلے اپنی ذات سے تم باہر آ جانا

تنہا طے کر لوں گا سارے مشکل رستے
شرط یہ ہے کہ تم دروازے پر آ جانا

میں دیوار پہ رکھ آؤں گا دیپ جلا کر
سایا بن کر تم دروازے پر آ جانا

تم نے ہم کو ٹھکرایا یہ ظرف تمہارا
جب تم کو ٹھکرا دیں لوگ ادھر آ جانا

باتوں کا بھی زخم بہت گہرا ہوتا ہے
قتل بھی کرنا ہو تو بے خنجر آ جانا

تم کیوں اپنی سطح پہ ہم کو لانا چاہو
مشکل ہے گہرائی کا اوپر آ جانا

جب تھک جائے ذہن خدائی کرتے کرتے
بندوں سے ملنے بندہ پرور آ جانا

ہم نے یہ تہذیب پرندوں سے سیکھی ہے
صبح کو گھر سے جانا شام کو گھر آ جانا

رستہ رستہ ایک عجائب گاہ مظفرؔ
ہنستی آنکھوں سے جانا ششدر آ جانا