EN हिंदी
پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں | شیح شیری
phir bahaar aai mere sayyaad ko parwa nahin

غزل

پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں

رنگیں سعادت یار خاں

;

پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں
اڑ کے میں پہنچوں چمن میں کیا کروں پر وا نہیں

جی جلا کر ایک بوسہ مانگتے ہیں بار سے
آگے یا قسمت وہ دیکھیں ہاں کرے ہے یا نہیں

حسرت و حرمان و یاس و حیرت رنج و تعب
کیا کہوں اس ہجر میں کیا کیا ہے اور کیا کیا نہیں

ہر کسی سے لگ چلے کیا ذکر ہے امکان کیا
ہم اسے پہچانتے ہیں خوب وہ ایسا نہیں

چار عنصر کی غزل رنگیںؔ کہو تم دوسری
ہے قسم تم کو علی جی کی یہ مت کہنا نہیں