پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا
زخم دیرینہ سے پھر خون ٹپکتا ہوگا
بیتی باتوں کے وہ ناسور ہرے پھر ہوں گے
بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہوگا
یورشیں کر کے امنڈ آئیں گی سونی شامیں
لاکھ بھٹکیں کسی عنواں نہ سویرا ہوگا
جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے
پھر کوئی لاکھ سنبھالے نہ سنبھلنا ہوگا
کیسی رت آئی ہوا چلتی ہے جی ڈولتا ہے
اب تو ہنسنا بھی تڑپنے کا بہانا ہوگا
ٹوٹ جائے گا یہ لاچارئی دائم کا فسوں
اور اس طرح کہ جیسے کوئی آتا ہوگا
دل دھڑکنے کی صدا آئے گی سونے پن میں
دور بادل کہیں پربت پہ گرجتا ہوگا
غزل
پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا
مختار صدیقی