پھر اپنے آپ سے اس کو حجاب آتا ہے
تھرکتی جھیل پہ جب ماہتاب آتا ہے
دکھائیے نہ ہمیں آپ موسمی آنسو
کہ یہ ہنر تو ہمیں بے حساب آتا ہے
وہ جس طریق سے اس نے سوال داغا ہے
اسی طرح کا مجھے بھی جواب آتا ہے
تو بارشوں سے شکایت سی ہونے لگتی ہے
گلاب سا جو کوئی زیر آب آتا ہے
میں اپنی آنکھ میں شبنم اتار لیتا ہوں
وہ اپنی آنکھ میں جب لے کے خواب آتا ہے
ابھی تو نام بھی اپنا نہیں ملا مجھ کو
ابھی تو نام سے پہلے جناب آتا ہے
غزل
پھر اپنے آپ سے اس کو حجاب آتا ہے
نادر صدیقی