EN हिंदी
پھر اندھیروں نے راستے روکے | شیح شیری
phir andheron ne raste roke

غزل

پھر اندھیروں نے راستے روکے

احسن علی خاں

;

پھر اندھیروں نے راستے روکے
پھر نئے خضر ہیں نئے دھوکے

غم کے ماروں کی سادگی دیکھو
مانگتے ہیں یہ ہر خوشی رو کے

ہم کہ جویائے عالم نو تھے
گھر کو لوٹے کہاں کہاں ہو کے

ہم سے مت پوچھ صبح کب ہوگی
ہم نے صدیاں گنوائی ہیں سو کے

جز اجل کوئی تو صلہ ملتا
زندگی تیرے بوجھ کو ڈھو کے

زہر زنداں صلیب یاد آئے
ذہن میں تخم آگہی بو کے

بات انساں کی کیوں سنے احسنؔ
جو فرشتہ ہو وہ اسے ٹوکے