پھر آ گیا زباں پہ وہی نام کیا کریں
تو ہی بتا اے گردش ایام کیا کریں
اک پل کو لب پہ آئی ہنسی پھر پلٹ گئی
یاد آ گیا ہو جیسے کوئی کام کیا کریں
ہر آرزو کے ہونٹ زمانے نے سی دئے
بجھنے لگا چراغ سر شام کیا کریں
ڈر ہے کہ تیرے ہاتھ سے ساغر نہ چھین لیں
ہم تشنہ لب اے ساقیٔ گلفام کیا کریں
آؤ مسافران عدم آؤ گھر چلیں
منزل ہماری دور ہے آرام کیا کریں
رخ پر کلی کے جب پڑی تھرا گئی نظر
دیکھا ہے ہر بہار کا انجام کیا کریں
سیمابؔ ہم کو چین ملے گا نہ عمر بھر
ہم تو ہیں اضطراب میں بدنام کیا کریں
غزل
پھر آ گیا زباں پہ وہی نام کیا کریں
سیماب سلطانپوری