EN हिंदी
پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر | شیح شیری
phal daraKHton se gire the aandhiyon mein thaal bhar

غزل

پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر

بدر واسطی

;

پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر
میرے حصے میں مگر آئے نہیں رومال بھر

پہلے سارے پنچھیوں کو پر ملیں پرواز کے
پھر شکاری سے کہے کوئی کہ اپنا جال بھر

موسموں کی سختیاں تو بادلوں سی اڑ گئیں
آج بھی محفوظ کب ہے دل کا شیشہ بال بھر

دھند ہی چھائی رہی آنکھوں میں تم سے کیا کہیں
اب تو یارو ایک سا رہتا ہے موسم سال بھر

دھوپ کی من مانیوں پر مسکراتے تھے کبھی
ان تناور پیڑوں پر پتے بچے ہیں ڈال بھر

ایک شے کا نام جو بتلائے اس کا نام ہو
اپنی گلیوں میں نہیں ہے ممبئی سی چال بھر

اور ہم سے کیا تقاضہ ہے ترا عصر رواں
جان و تن کا نام ہے بس ہڈیوں پر کھال بھر