پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں
مشکل ہے خود کو ڈھونڈھنا عکس تباہ میں
جل بجھ چکا ہے خواہش ناکام سے وجود
پرچھائیں پھر رہی ہے مکان سیاہ میں
میں وہ اجل نصیب کہ قاتل ہوں اپنا آپ
ہوتا ہوں روز قتل کسی قتل گاہ میں
رکھا گیا ہوں عزت و توقیر کا اسیر
باندھا گیا ہے سر کو غرور کلاہ میں
ہلکان میں نہیں تری خاطر سر ہجوم
سب مر رہے ہیں حسرت یک دو نگاہ میں

غزل
پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں
اعجاز گل