EN हिंदी
پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی | شیح شیری
phabti tere mukhDe pe mujhe hur ki sujhi

غزل

پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی

انشاءؔ اللہ خاں

;

پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
لا ہاتھ ادھر دے کہ بہت دور کی سوجھی

ٹک دیکھئے گا جبہ و عمامہ زاہد
ہے اس پہ مجھے بلعم باعور کی سوجھی

کیوں میں دل پر آبلہ پر تاک نہ باندھوں
ہے اس پہ مجھے خوشۂ انگور کی سوجھی

ہے شیخ سیہ چہرہ جو مجلس میں پھدکتا
یاروں کو یہاں روئی کے لنگور کی سوجھی

واعظ جو پڑھا جن متبختر ہے نہایت
اس پر مجھے شیطان کی ہے پور کی سوجھی

ہاتھ اپنے سے جب چھٹ گئی اس ڈنڈ کی مچھلی
تب اس کے تڑپنے پہ سقنقور کی سوجھی

ہاں اے شفق صبح تری دیکھ کے رنگت
شنجرف کی سوجھی مجھے کافور کی سوجھی

جب پھول جھڑے نور کے اس آہ سے میری
اس پر مجھے انشاؔ شجر طور کی سوجھی