پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
لا ہاتھ ادھر دے کہ بہت دور کی سوجھی
ٹک دیکھئے گا جبہ و عمامہ زاہد
ہے اس پہ مجھے بلعم باعور کی سوجھی
کیوں میں دل پر آبلہ پر تاک نہ باندھوں
ہے اس پہ مجھے خوشۂ انگور کی سوجھی
ہے شیخ سیہ چہرہ جو مجلس میں پھدکتا
یاروں کو یہاں روئی کے لنگور کی سوجھی
واعظ جو پڑھا جن متبختر ہے نہایت
اس پر مجھے شیطان کی ہے پور کی سوجھی
ہاتھ اپنے سے جب چھٹ گئی اس ڈنڈ کی مچھلی
تب اس کے تڑپنے پہ سقنقور کی سوجھی
ہاں اے شفق صبح تری دیکھ کے رنگت
شنجرف کی سوجھی مجھے کافور کی سوجھی
جب پھول جھڑے نور کے اس آہ سے میری
اس پر مجھے انشاؔ شجر طور کی سوجھی
غزل
پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
انشاءؔ اللہ خاں