پیٹ کی آگ میں برباد جوانی کر کے
پنچھی لوٹے ہیں ابھی نقل مکانی کر کے
خانۂ دل میں گھڑی بھر کو ٹھہرنا ہے انہیں
پھر گزر جائیں گے ہر بات پرانی کر کے
عشق اظہار کا طالب ہے نہ مطلوب نظر
فائدہ کیا ہے میاں شعلہ بیانی کر کے
اب وہاں خاک اڑا کرتی ہے ارمانوں کی
ہم چلے آئے تھے منزل پہ نشانی کر کے
پار لگ جائے گا سانسوں کا سفینہ اک روز
دھڑکنوں میں تری یادوں سے روانی کر کے
چند لمحوں کا مرا اس کا سفر تھا ایسا
رات ہو جیسے کہیں شام سہانی کر کے
اس کی نظروں میں حقیقت ہے فسانہ ذاکرؔ
چھوڑ جائے گا مجھے اب وہ کہانی کر کے
غزل
پیٹ کی آگ میں برباد جوانی کر کے
ذاکر خان ذاکر