پیش وہ ہر پل ہے صاحب
پھر بھی اوجھل ہے صاحب
آدھی ادھوری دنیا میں
کون مکمل ہے صاحب
آج تو پل پل مرنا ہے
جینا تو کل ہے صاحب
اچھی خاصی وحشت ہے
اور مسلسل ہے صاحب
دور تلک تپتا صحرا
اور اک چھاگل ہے صاحب
پورے چاند کی آدھی رات
رقصاں جنگل ہے صاحب
جھیل کنارے تنہائی
اور اک پاگل ہے صاحب
اپنا آپ مقابل ہے
جیون دنگل ہے صاحب
ہر خواہش کا قتل ہوا
دل کیا مقتل ہے صاحب
دل کا بوجھ کیا ہلکا
آنکھ اب بوجھل ہے صاحب
اب وہ کھڑکی بند ہوئی
در بھی مقفل ہے صاحب
غزل
پیش وہ ہر پل ہے صاحب
وقار سحر