پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے خبردار سے ہیں
شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں
ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں
اور جو پل پہ کھڑے لوگ ہیں اخبار سے ہیں
چڑھتے سیلاب میں ساحل نے تو منہ ڈھانپ لیا
لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں
کل تواریخ میں دفنائے گئے تھے جو لوگ
ان کے سائے ابھی دروازوں پہ بیدار سے ہیں
وقت کے تیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے
اور جو نیل پڑے ہیں تری گفتار سے ہیں
روح سے چھیلے ہوئے جسم جہاں بکتے ہیں
ہم کو بھی بیچ دے ہم بھی اسی بازار سے ہیں
جب سے وہ اہل سیاست میں ہوئے ہیں شامل
کچھ عدو کے ہیں تو کچھ میرے طرف دار سے ہیں
غزل
پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے خبردار سے ہیں
گلزار