EN हिंदी
پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی | شیح شیری
payam le ke hawa dur tak nahin jati

غزل

پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی

عمران الحق چوہان

;

پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی
نوائے خلق خدا دور تک نہیں جاتی

یہیں کہیں پہ بھٹکتی ہیں زیر چرخ کہن
ہماری کوئی دعا دور تک نہیں جاتی

گلے میں حلقۂ زریں حلق میں لقمۂ تر
تبھی تو اپنی صدا دور تک نہیں جاتی

کسی کے چہرے کے پیچھے کا حال کیا معلوم
شکست دل کی صدا دور تک نہیں جاتی

مرے دیے کو بس اک ضد سی ہے اندھیرے سے
اگرچہ اس کی ضیا دور تک نہیں جاتی

عجیب خوف کا موسم ہے ان دنوں عمرانؔ
سگندھ لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی