پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی
نوائے خلق خدا دور تک نہیں جاتی
یہیں کہیں پہ بھٹکتی ہیں زیر چرخ کہن
ہماری کوئی دعا دور تک نہیں جاتی
گلے میں حلقۂ زریں حلق میں لقمۂ تر
تبھی تو اپنی صدا دور تک نہیں جاتی
کسی کے چہرے کے پیچھے کا حال کیا معلوم
شکست دل کی صدا دور تک نہیں جاتی
مرے دیے کو بس اک ضد سی ہے اندھیرے سے
اگرچہ اس کی ضیا دور تک نہیں جاتی
عجیب خوف کا موسم ہے ان دنوں عمرانؔ
سگندھ لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی

غزل
پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی
عمران الحق چوہان